وہ جو حسن عالم نشہ ہے اسے اب کی عین شباب ہے

انشاء اللہ خان انشا


ٹک اک اے نسیم سنبھال لے کہ بہار مستِ شراب ہے
وہ جو حسن عالم نشہ ہے اسے اب کی عین شباب ہے
وہ گھٹائیں چھائیں جو کالیاں جو ہری بھری ہوئیں ڈالیاں
ابھر آئیں پھولوں کی لالیاں تو بجائے آب شہاب ہے
یہ دو روزہ نشو و نما کو تو نہ سمجھ کہ نقش پر آب سے
یہ سراب ہے یہ حباب ہے فقط ایک قصۂِ خواب ہے
عرق بہار شراب ہے وہ ہی آج چھڑکیں گے آپ پر
نہ تو بید مشک ہے اس گھڑی نہ تو کیوڑا نہ گلاب ہے
انہیں کہنے سننے سے بیر ہے جو خود آئیں سو تو بخیر ہے
یہ غرض کہ زور ہی سیر ہے نہ سوال ہے نہ جواب ہے
کدھر آؤں جاؤں کروں سو کیا مرا جی ہی ناک میں آ گیا
نہ تو عرضِ حال کی تاب ہے نہ تو صبر خانہ خراب ہے
مجھے وحش و طیر سے رشک ہے کہ کبھی انہوں کو کسی نمط
نہ سوال ہے نہ جواب ہے نہ عذاب ہے نہ عقاب ہے
مری بات مان سنا دلا نہ تو عرض و فرض پہ جی چلا
کوئی ان کو ٹوکے سو کیا بھلا کہ وہ عالی ان کی جناب ہے
ارے انشاؔ اب جو یہ دور ہے تری وضع ان دنوں اور ہے
یہ بھی کوئی زیست کا طور ہے نہ شراب ہے نہ کباب ہے
فہرست