نہ وہ بستی میں نہ اجاڑ میں نہ وہ جھاڑ میں نہ پہاڑ میں

انشاء اللہ خان انشا


وہ جو شخص اپنے ہی تاڑ میں سو چھپا ہے دل ہی کی آڑ میں
نہ وہ بستی میں نہ اجاڑ میں نہ وہ جھاڑ میں نہ پہاڑ میں
مجھے کام تجھ سے ہے اے جنوں نہ کہوں کسی سے نہ کچھ سنوں
نہ کسی کی رد و قدح میں ہوں نہ اکھاڑ میں نہ پچھاڑ میں
یہ صبا نے قیس سے آ کہا کہ سنا کچھ اور بھی ماجرا
ترے پاس سے جو چلا گیا تو کھڑا ہے ناقہ اجاڑ میں
ارے آہ تو نے غضب کیا مرے دل کو مجھ سے تڑا لیا
مری جی کو لے کے جلا دیا پڑی اختلاط یہ پہاڑ میں
خفگی بھی طرفہ ہے ایک شے پڑے قصہ ہوتے ہیں لاکھوں طے
وہ کہاں ملاپ میں لطف ہے جو مزہ ہے ان کی بگاڑ میں
مژہ پر ہے پارۂ دل تھنبا وہ مثل ہوئی ہے اب اے خدا
کہ درخت سے جو کبھی گرا تو وہ اٹکا ان کے ہی جھاڑ میں
کہیں کھڑکیوں کی طرف بندھی مری ٹکٹکی تو اے لو ابھی
گل نرگس آ کے لگا گئی وہ پری ہر ایک دراڑ میں
مری دل میں نشہ کا ہے مکاں مجھے سوجھتی ہیں وہ مستیاں
کہ کھجوری چوٹیوں والیاں پڑی پھرتی ہیں مرے تاڑ میں
بڑی داڑھیوں پہ نہ جا دلا یہ سب آہوؤں کی ہیں مبتلا
یہ شکار کیسے ہیں برملا انہیں ٹٹیوں کی تو آڑ میں
کھڑی جھانکتی ہے وہی پری نہیں شبہ اس میں تو واقعی
وہ جو عطر فتنہ کی باس تھی سو رچی ہوئی ہے کواڑ میں
نہ کر اپنی جان کو مضمحل ارے انشاؔ ان سے لگا نہ دل
تو دگر نہ ہووے گا منفعل کہیں آ گیا جو لتاڑ میں
فہرست