غزل سرا
ہماری کتابیں
شعراء
رابطہ
اکاؤنٹ
رجسٹر
لاگ اِن
غزل سرا کے بارے میں
تلاش
مرزا غالب
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
نہ پوچھ حال اس انداز اس عتاب کے ساتھ
لبوں پہ جان بھی آ جائے گی جواب کے ساتھ
دکھا کے جنبشِ لب ہی ، تمام کر ہم کو
نہ دے جو بوسہ ، تو منہ سے کہیں جواب تو دے
گزرا اسدؔ مسرتِ پیغامِ یار سے
قاصد پہ مجھ کو رشکِ سوال و جواب ہے
امام بخش ناسخ
یہ مجھ کو اس کے تغافل سے ہے یقین کہ ہائے
جواب نامے سو اے نامے کا جواب نہیں
صاف قاصد کو واں جواب ملا
میرے خط کا یہی جواب ملا
انشاء اللہ خان انشا
انہیں کہنے سننے سے بیر ہے جو خود آئیں سو تو بخیر ہے
یہ غرض کہ زور ہی سیر ہے نہ سوال ہے نہ جواب ہے
عجب الٹے ملک کے ہیں اجی آپ بھی کہ تم سے
کبھی بات کی جو سیدھی تو ملا جواب الٹا
یوں ہی وعدہ پر جو جھوٹے تو نہیں ملاتے تیور
اے لو اور بھی تماشا یہ سنو جواب الٹا
بات سب ٹھیک ٹھاک ہے پہ ابھی
کچھ سوال و جواب باقی ہے
بہادر شاہ ظفر
جوابِ خط کے نہ لکھنے سے یہ ہوا معلوم
کہ آج سے ہمیں اے نامہ بر جواب ہوا
تیرا احساں ہو گا قاصد گر شتاب آ جائے گا
صبر مجھ کو دیکھ کر خط کا جواب آ جائے گا
حیدر علی آتش
انصاف سے وہ زمزمہ میرا اگر سنے
دم بند ہووے طوطی حاضر جواب کا
داغ دہلوی
نظر میں ہے تیری کبریائی، سما گئی تیری خود نمائی
اگر چہ دیکھی بہت خدائی، مگر نہ تیرا جواب دیکھا
پیامی کام یاب آئے نہ آئے
خدا جانے جواب آئے نہ آئے
شیخ ابراہیم ذوق
جوابِ نامہ نہیں گر تو رکھ دو نامۂِ یار
جو پوچھیں قبر میں عاشق سے کچھ جواب تو دے
مصحفی غلام ہمدانی
میں لکھا ہے خط تو قاصد پہ یہ ہو گا مجھ پہ احساں
انہیں پاؤں آئے گا تو جو لیے جواب الٹا
قاصد کا سر آیا اس گلی سے
نامے کا مرے جواب دیکھا
بہ سوال بوسہ اس نے مجھے رک کے دی جو گالی
میں ادب کے مارے اس کو نہ دیا جواب الٹا
بوسے کا کیا سوال لیکن
اس منہ سے جواب کچھ نہ نکلا
دیتا ہوں نامہ میں تجھے اس شرط پر ابھی
قاصد تو اس کے پاس سے لے کر جواب آ
مصطفٰی خان شیفتہ
پوچھی تھی ہم نے وجہ ملاقات مدعی
اک عمر ہو گئی انہیں فکر جواب میں
مومن خان مومن
کہتے ہیں تم کو ہوش نہیں اضطراب میں
سارے گلے تمام ہوئے اک جواب میں
دونوں کا ایک حال ہے یہ مدعا ہو کاش
وہ ہی خط اس نے بھیج دیا کیوں جواب میں
فیض احمد فیض
اس طرح اپنی خامشی گونجی
گویا ہر سمت سے جواب آئے
مرزا رفیع سودا
دل تو نے عبث لکھا تھا نامہ
جو ان نے دیا جواب دیکھا
میر انیس
لحد میں آئیں نکیرین آئیں بسمِ اللہ
ہر اک سوال کا ہم بھی جواب سمجھے ہیں
باقی صدیقی
دل کی تسکیں بھی چاہتا ہوں میں
میرا مقصد فقط جواب نہیں
آب مانگو، سراب ملتا ہے
اس طرح بھی جواب ملتا ہے
جون ایلیا
نوچ پھینکے لبوں سے میں نے سوال
طاقت شوخی جواب نہیں
تو ہی میرا سوال ازل سے ہے
اور ساجن ترا جواب نہیں
تم کچھ کہے جاؤ کیا کہوں میں
بس دل میں جواب رکھ رہا ہوں
دہر آشوب ہے سوالوں کا
اور خدا لا جواب ہے سو ہے
خود سوال ان لبوں سے کر کے میاں
خود ہی ان کے جواب بیچے ہیں
نہ لکھا اس نے کوئی بھی مکتوب
پھر بھی ہم نے جواب ہی لکھا
جگر مراد آبادی
عشق کو بے نقاب ہونا تھا
آپ اپنا جواب ہونا تھا
عاشق کی بے دلی کا تغافل نہیں جواب
اس کا بس ایک جوشِ محبت جواب ہے
میں عشق بے نیاز ہوں تم حسنِ بے پناہ
میرا جواب ہے نہ تمہارا جواب ہے
مانوس اعتبار کرم کیوں کیا مجھے
اب ہر خطائے شوق اسی کا جواب ہے
عشق میں لا جواب ہیں ہم لوگ
ماہتاب آفتاب ہیں ہم لوگ
تو ہمارا جواب ہے تنہا
اور تیرا جواب ہیں ہم لوگ
جب ملی آنکھ ہوش کھو بیٹھے
کتنے حاضر جواب ہیں ہم لوگ
عشق کا سحر کام یاب ہوا
میں ترا تو مرا جواب ہوا
لاکھ رنگیں بیانیوں پہ مری
ایک سادہ جواب کا عالم
ستم کام یاب نے مارا
کرم لا جواب نے مارا
میں ترا عکس ہوں کہ تو میرا
اس سوال و جواب نے مارا
زہے خواب و تعبیر خواب محبت
محبت ہی نکلی جواب محبت
سراج الدین ظفر
میری نظر سوال ہے اور برملا سوال
ان کی نظر جواب ہے اور لا جواب ہے
آزاد دو جہاں ہوں سلامت غرورِ عشق
اب میری بے خودی بھی خودی کا جواب ہے
عرفان صدیقی
غزل کسی کے نام انتساب کے لیے نہیں
یہ خط ضرور ہے مگر جواب کے لیے نہیں
اختر شیرانی
امید پرسشِ احوال ہو تو کیوں کر ہو
سلام کا بھی تری بزم میں جواب نہیں
زمانے بھر کے غموں کو ہے دعوت غرا
کہ ایک جام میں سب کا جواب ہے ساقی
زباں پہ آیا نہ حرف مطلب کہ کہہ گئیں کچھ شریر نظریں
سوال کرنے نہ پائے ہیں ہم کہ مل گیا ہے جواب پہلے
اسرار الحق مجاز
برباد تمنا پہ عتاب اور زیادہ
ہاں میری محبت کا جواب اور زیادہ
مری وفا کا ترا لطف بھی جواب نہیں
مرے شباب کی قیمت ترا شباب نہیں
یہ ماہتاب نہیں ہے کہ آفتاب نہیں
سبھی ہے حسن مگر عشق کا جواب نہیں
بشیر بدر
بہت سے اور بھی گھر ہیں خدا کی بستی میں
فقیر کب سے کھڑا ہے جواب دے جاؤ
غلام محمد قاصر
ہر بچہ آنکھیں کھولتے ہی کرتا ہے سوال محبت کا
دنیا کے کسی گوشے سے اسے مل جائے جواب تو اچھا ہو