غیر از خوں ناب کچھ نہ نکلا

مصحفی غلام ہمدانی


ان آنکھوں سے آب کچھ نہ نکلا
غیر از خوں ناب کچھ نہ نکلا
بوسے کا کیا سوال لیکن
اس منہ سے جواب کچھ نہ نکلا
باہم ہوئی یوں تو دید وا دید
پر دل کا حجاب کچھ نہ نکلا
جز تیری ہوا کے اپنے سر میں
مانند حباب کچھ نہ نکلا
کرتا تھا بہت سا مجھ پہ دعویٰ
پر وقت حساب کچھ نہ نکلا
سینے میں جو دل کی کی تفحص
جز دود کباب کچھ نہ نکلا
ہم سمجھے تھے جس کو مصحفیؔ یار
وہ خانہ خراب کچھ نہ نکلا
مفعول مفاعِلن فَعُولن
ہزج مسدس اخرب مقبوض محذوف
فہرست