اے حسنِ یار شرم یہ کیا
انقلاب ہے
تجھ سے زیادہ درد ترا کام
یاب ہے
عاشق کی بے دلی کا تغافل نہیں جواب
اس کا بس ایک جوشِ محبت
جواب ہے
تیری عنایتیں کہ نہیں نذر جاں قبول
تیری نوازشیں کہ زمانہ
خراب ہے
اے حسن اپنی حوصلہ افزائیاں تو دیکھ
مانا کہ چشمِ شوق بہت بے
حجاب ہے
میں عشق بے نیاز ہوں تم حسنِ بے پناہ
میرا جواب ہے نہ تمہارا
جواب ہے
مے خانہ ہے اسی کا یہ دنیا اسی
کی ہے
جس تشنہ لب کے ہاتھ میں جامِ
شراب ہے
اس سے دلِ تباہ کی روداد کیا کہوں
جو یہ نہ سن سکے کہ زمانہ
خراب ہے
اے محتسب نہ پھینک مرے محتسب نہ پھینک
ظالم شراب ہے ارے ظالم
شراب ہے
اپنے حدود سے نہ بڑھے کوئی عشق میں
جو ذرہ جس جگہ ہے وہیں
آفتاب ہے
وہ لاکھ سامنے ہوں مگر اس کا کیا علاج
دل مانتا نہیں کہ نظر کام
یاب ہے
میری نگاہِ شوق بھی کچھ کم نہیں مگر
پھر بھی ترا شباب ترا ہی
شباب ہے
مانوس اعتبار کرم کیوں کیا مجھے
اب ہر خطائے شوق اسی کا
جواب ہے
میں اس کا آئینہ ہوں وہ ہے میرا آئینہ
میری نظر سے اس کی نظر کام
یاب ہے
تنہائی فراق کے قربان جائیے
میں ہوں خیالِ یار ہے چشمِ پر
آب ہے
سرمایۂ فراق جگرؔ آہ کچھ نہ پوچھ
اب جان ہے سو اپنے لیے خود
عذاب ہے