پردے میں تھا آفتاب دیکھا

مرزا رفیع سودا


چہرے پہ نہ یہ نقاب دیکھا
پردے میں تھا آفتاب دیکھا
کیوں کر نہ بکوں میں ہاتھ اس کے
یوسف کی طرح میں خواب دیکھا
کچھ میں ہی نہیں ہوں، ایک عالم
اس کے لیے یاں خراب دیکھا
دل تو نے عبث لکھا تھا نامہ
جو ان نے دیا جواب دیکھا
بے جرم و گناہ قتل عاشق
مذہب میں ترے صواب دیکھا
کچھ ہووے تو ہو عدم میں راحت
ہستی میں تو ہم عذاب دیکھا
جس چشم نے مجھ طرف نظر کی
اس چشم کو میں پر آب دیکھا
حیران وہ تیرے عشق میں ہے
یاں ہم نے جو شیخ و شاب دیکھا
بھولا ہے وہ دل سے لطف اس کا
سوداؔ نے یہ جب عتاب دیکھا
مفعول مفاعِلن فَعُولن
ہزج مسدس اخرب مقبوض محذوف
فہرست