ایک ایسی دنیا میں قدم رکھیں جہاں معروف پاکستانی اردو ناول نگار رفاقت حیات بے باکی سے مضافاتی زندگی اور محبت اور سماجی پابندیوں کی پیچیدگیوں کو بے نقاب کرتے ہیں۔
خدائے سخن میر تقی میر کی غزل کے باردیف کلیات کا پہلا حصہ، پیپر بیک اور ہارڈ کور کی صورت میں۔
خدائے سخن میر تقی میر کی غزل کے باردیف کلیات کا دوسرا حصہ، پیپر بیک اور ہارڈ کور کی صورت میں۔
1958 میں چھپی مجید امجد کی پہلی کتاب بعینہٖ اسی صورت میں ہر جگہ دستیاب
علامہ محمد اقبال کا تمام اردو کلام ایک خوبصورت کتاب کی صورت میں
مرزا محمد رفیع سودا 1713ء میں دہلی، برطانوی ہندوستان (موجودہ بھارت) میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک معزز خاندان سے تھا جو کابل سے ہندوستان تجارت کی غرض سے آئے تھے۔ ان کے والد مرزا محمد شفی ایک امیر تاجر تھے۔ سودا کو شاعری سے لگاؤ بچپن سے ہی تھا اور انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم دہلی میں حاصل کی۔
سودا نے ابتدائی طور پر فارسی میں شاعری کی لیکن بعد میں اپنے استاد خان آرزو کے مشورے پر اردو میں لکھنا شروع کیا۔ ان کے اساتذہ میں سلیمان قلی خان وداد اور شاہ حاتم شامل تھے۔ سودا نے دہلی میں اپنی شاعری کی ابتدا کی اور بعد میں لکھنؤ منتقل ہو گئے جہاں انہیں نواب آصف الدولہ نے سرپرستی فراہم کی اور "ملک الشعراء" کا خطاب دیا۔
سودا کی شاعری میں قصیدے، غزلیں، مراثی، سلام اور ہجو شامل ہیں۔ ان کی شاعری کی خصوصیات میں زوردار بیانیہ، شوکت الفاظ، تخیل کی بلندی، اور واقعہ نگاری شامل ہیں۔ انہوں نے سماجی مسائل اور سیاسی حالات پر بھی شاعری کی۔ ان کے قصائد میں عمدہ تشبیہات اور استعارات کی خوبصورتی نمایاں ہے۔ ان کی شاعری کی کلیات "کلیاتِ سودا" کے نام سے مشہور ہے۔
سودا کی زندگی کا زیادہ حصہ دہلی اور لکھنؤ میں گزرا۔ انہوں نے دہلی میں شاہ عالم کے دربار میں بھی خدمات انجام دیں لیکن ایک تنازعے کے بعد وہ دربار چھوڑ کر لکھنؤ چلے گئے جہاں انہوں نے نواب شجاع الدولہ اور نواب آصف الدولہ کے دربار میں مقبولیت حاصل کی۔
مرزا رفیع سودا کا انتقال 1781ء میں لکھنؤ میں ہوا۔ ان کی شاعری آج بھی اردو ادب میں ایک اہم مقام رکھتی ہے اور ان کے اشعار کی خوبصورتی اور گہرائی اردو شاعری کے مداحوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔