میں تیرہ شب آفتاب دیکھا

مصحفی غلام ہمدانی


رخ زلف میں بے نقاب دیکھا
میں تیرہ شب آفتاب دیکھا
محروم ہے نامہ دارِ دنیا
پانی سے تہی حباب دیکھا
سرخی سے ترے لبوں کی ہم نے
آتش کو میان آب دیکھا
قاصد کا سر آیا اس گلی سے
نامے کا مرے جواب دیکھا
جانا یہ ہم نے وفات کے بعد
دیکھا جو جہاں میں خواب دیکھا
آفت کا نشانہ ہو چکا تھا
میں دل کی طرف شتاب دیکھا
اک وضع نہیں مزاج معشوق
گہہ لطف و گہے عتاب دیکھا
آنکھوں سے بہاریں گزریں کیا کیا
کس کس کا نہ میں شباب دیکھا
کل مے کدے میں بغیر ساقی
اوندھا قدح شراب دیکھا
کیں اس نے جفائیں بے حسابی
اک دن نہ کبھو حساب دیکھا
سینے سے نکل پڑا نہ آخر
دل کا مرے اضطراب دیکھا
کیا ہو گی فلاح بعد مردن
جیتے تو سدا عذاب دیکھا
آبادی ہے اس کی مصحفیؔ کم
عالم کے تئیں خراب دیکھا
مفعول مفاعِلن فَعُولن
ہزج مسدس اخرب مقبوض محذوف
فہرست