میں بھی لگا دوں آگ گلستاں کو تو سہی

مصحفی غلام ہمدانی


میری سی تو نے گل سے نہ گر اے صبا کہی
میں بھی لگا دوں آگ گلستاں کو تو سہی
گو صبح دور ہے شبِ ہجراں کی لیک تو
اپنی طرف سے تو نہ کر اے نالہ گو تہی
ظالم پھرا مزاج نہ تیرا غرور سے
انصاف کر تو میں تری کیا کیا جفا سہی
لطموں سے بحر حسن کے ہے زلف کا یہ رنگ
لہروں میں جیسے پھرتی ہو ناگن بہی بہی
اللٰہ رے رعب حسن کہ اس بت کے سامنے
آئی جو بات دل سے زباں پر وہیں رہی
ہم اس فریق میں نہیں وہ اور لوگ ہیں
دنیا کے نیک و بد سے جو رکھتے ہیں آ گہی
صد آفریں کہ بحر میں سوداؔ کی مصحفیؔ
اک تو نے آب دار غزل اور بھی کہی
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست