یہ عشق جان کو میرے کوئی عذاب ہوا

بہادر شاہ ظفر


جگر کے ٹکڑے ہوئے جل کے دل کباب ہوا
یہ عشق جان کو میرے کوئی عذاب ہوا
کیا جو قتل مجھے تم نے خوب کام کیا
کہ میں عذاب سے چھوٹا تمہیں ثواب ہوا
کبھی تو شیفتہ اس نے کہا کبھی شیدا
غرض کہ روز نیا اک مجھے خطاب ہوا
پیوں نہ رشک سے خوں کیوں کہ دم بہ دم اپنا
کہ ساتھ غیر کے وہ آج ہم شراب ہوا
تمہارے لب کے لب جام نے لیے بوسے
لب اپنے کاٹا کیا میں نہ کام یاب ہوا
گلی گلی تری خاطر پھرا بچشم پر آب
لگا کے تجھ سے دل اپنا بہت خراب ہوا
تری گلی میں بہائے پھرے ہے سیل سرشک
ہمارا کاسۂِ سر کیا ہوا حباب ہوا
جوابِ خط کے نہ لکھنے سے یہ ہوا معلوم
کہ آج سے ہمیں اے نامہ بر جواب ہوا
منگائی تھی تری تصویرِ دل کی تسکیں کو
مجھے تو دیکھتے ہی اور اضطراب ہوا
ستم تمہارے بہت اور دن حساب کا ایک
مجھے ہے سوچ یہ ہی کس طرح حساب ہوا
ظفرؔ بدل کے ردیف اور تو غزل وہ سنا
کہ جس کا تجھ سے ہر اک شعر انتخاب ہوا
فہرست