جلتا ہوں ہجر شاہد و یاد
شراب میں
شوق ثواب نے مجھے ڈالا
عذاب میں
کہتے ہیں تم کو ہوش نہیں
اضطراب میں
سارے گلے تمام ہوئے اک
جواب میں
پھیلی شمیم یار مرے اشکِ سرخ سے
دل کو غضب فشار ہوا پیچ و
تاب میں
چینِ جبیں کو دیکھ کے دل بستہ تر ہوا
کیسی کشود کار کشاد
نقاب میں
ہم کچھ تو بد تھے جب نہ کیا یار نے پسند
اے حسرت اس قدر غلطی
انتخاب میں
رہتے ہیں جمع کوچۂِ جاناں میں خاص و عام
آباد ایک گھر ہے جہانِ
خراب میں
آنکھ اس کی پھر گئی تھی دل اپنا بھی پھر گیا
بد نام میرے گریۂِ رسوا سے ہو چکے
اب عذر کیا رہا نگہ بے
حجاب میں
مطلب کی جستجو نے یہ کیا حال کر دیا
گویا کہ رو رہا ہوں رقیبوں کی جان کو
آتش زبانہ زن ہوئی طوفان
آب میں
ناکامیوں سے کام رہا عمر بھر
ہمیں
پیری میں یاس ہے جو ہوس تھی
شباب میں
ہے اختیار یار میں سود و زیاں مگر
فاضل تھے ہم جہاں سے قضا کے
حساب میں
ناصح ہے عیب جو و دل آزار اس قدر
دونوں کا ایک حال ہے یہ مدعا ہو کاش
وہ ہی خط اس نے بھیج دیا کیوں
جواب میں
تقدیر بھی بری مری تقریر بھی بری
کیا جلوے یاد آئے کہ اپنی خبر نہیں
بے بادہ مست ہوں میں شبِ
ماہتاب میں
ہے منتوں کا وقت شکایت رہی رہی
آئے تو ہیں منانے کو وہ پر
عتاب میں
تیری جفا نہ ہو تو ہے سب دشمنوں سے امن
بدمست غیر محو دل اور بخت
خواب میں
پیہم سجود پائے صنم پر دم وداع
مومنؔ خدا کو بھول گئے
اضطراب میں