طوفانِ باد ہے مجھے جھونکا نسیم کا

مومن خان مومن


ہم رنگ لاغری سے ہوں گل کی شمیم کا
طوفانِ باد ہے مجھے جھونکا نسیم کا
چھوڑا نہ کچھ بھی سینے میں طغیان اشک نے
اپنی ہی فوج ہو گئی لشکرِ غنیم کا
یاران نو کے واسطے مجھ سے خفا ہوئے
تم کو نہیں ہے پاس نیاز قدیم کا
یاد آئی کافروں کو مری آہ سرد کی
کیوں کہ نہ کانپنے لگے شعلہ جحیم کا
از بس کہ ثبت نامہ ہے سوز تپ دروں
قاصد کا ہاتھ ہے یدِ بیضا کلیم کا
واعظ کبھی ہلا نہیں کوئے صنم سے میں
کیا جانوں کیا ہے مرتبہ عرشِ عظیم کا
مارا ہے وصل غیر کے شکوے پہ چاہیے
مدفن جدا جدا مری لاش دو نیم کا
کہتا ہے بات بات پہ کیوں جان کھا گئے
گویا کہ پک گیا ہے کلیجا ندیم کا
واعظ بتوں کو خلد میں لے جائیں گے کہیں
ہے وعدہ کافروں سے عذابِ الیم کا
مومنؔ تجھے تو وہب ہے مومن ہی وہ نہیں
جو معتقد نہیں تری طبعِ سلیم کا
فہرست