عذر کچھ چاہیے ستانے کو

مومن خان مومن


ہم سمجھتے ہیں آزمانے کو
عذر کچھ چاہیے ستانے کو
سنگِ در سے ترے نکالی آگ
ہم نے دشمن کا گھر جلانے کو
صبح عشرت ہے وہ نہ شام وصال
ہائے کیا ہو گیا زمانے کو
بوالہوس روئے میرے گریہ پہ اب
منہ کہاں تیرے مسکرانے کو
برق کا آسمان پر ہے دماغ
پھونک کر میرے آشیانے کو
سنگ سودا جنوں میں لیتے ہیں
اپنا ہم مقبرہ بنانے کو
شکوہ ہے غیر کی کدورت کا
سو مرے خاک میں ملانے کو
روزِ محشر بھی ہوش گر آیا
جائیں گے ہم شراب خانے کو
سن کے وصف اس پہ مر گیا ہمدم
خوب آیا تھا غم اٹھانے کو
کوئی دن ہم جہاں میں بیٹھے ہیں
آسماں کے ستم اٹھانے کو
چل کے کعبہ میں سجدہ کر مومنؔ
چھوڑ اس بت کے آستانے کو
نقش پائے رقیب کی محراب
نہیں زیبندہ سر جھکانے کو
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
فہرست