کہ بہ سوئے دل مژہ سے وہیں خونِ ناب الٹا

مصحفی غلام ہمدانی


یہ دم اس کے وقت رخصت بہ صد اضطراب الٹا
کہ بہ سوئے دل مژہ سے وہیں خونِ ناب الٹا
سر لوح اس کی صورت کہیں لکھ گیا تھا مانی
اسے دیکھ کر نہ میں نے ورقِ کتاب الٹا
میں عجب یہ رسم دیکھی مجھے روزِ عیدِ قرباں
وہی ذبح بھی کرے اور وہی لے ثواب الٹا
یہ الٹ گئی ہے قسمت کہ جو دل کسی کو دوں میں
وہ مرے ہی سر سے مارے اسے کر خراب الٹا
یہ نقاب پوش ظالم کوئی زور ہے کہ جس نے
کیے خون سیکڑوں اور نہ ذرا نقاب الٹا
جو بوقت غسل اپنا وہ پھرا لے موج سے منہ
تو پھراتے ہی منہ اس کے لگے بہنے آب الٹا
میں لکھا ہے خط تو قاصد پہ یہ ہو گا مجھ پہ احساں
انہیں پاؤں آئے گا تو جو لیے جواب الٹا
ترے آگے مہر تاباں ہے زمیں پہ سر بہ سجدہ
یہ ورق کا گنجفے کے نہیں آفتاب الٹا
نہیں جائے شکوہ اس سے ہمیں مصحفیؔ ہمیشہ
یہ زمانے کا رہا ہے یوں ہی انقلاب الٹا
فَعِلات فاعِلاتن فَعِلات فاعِلاتن
رمل مثمن مشکول
فہرست