یہ خط ضرور ہے مگر جواب کے لیے نہیں

عرفان صدیقی


غزل کسی کے نام انتساب کے لیے نہیں
یہ خط ضرور ہے مگر جواب کے لیے نہیں
اب اس زمیں پہ شہ سوار لوٹ کر نہ آئیں گے
سو یہ سفر غبارِ ہم رکاب کے لیے نہیں
یہ ساعتِ وصال کس جتن سے ہاتھ آئی ہے
متاعِ دست برد ہے حساب کے لیے نہیں
نکل رہی ہیں طاق و در سے سایہ سایہ صورتیں
سنو! یہ بام سیر ماہتاب کے لیے نہیں
میں کیا بتاؤں جاگتا ہوں رات رات کس لیے
نہیں، کسی کی چشمِ نیم خواب کے لیے نہیں
تو اور کوئی راز ہے مرے سخن کا‘ صاحبو!
کہ یہ عذابِ جاں فقط ثواب کے لیے نہیں
مفاعِلن مفاعِلن مفاعِلن مفاعِلن
ہزج مثمن مقبوض
فہرست