ورنہ اک قافلہ ملکِ عدم ہیں ہم لوگ

باقی صدیقی


کوئی سمجھے تو زمانے کا بھرم ہیں ہم لوگ
ورنہ اک قافلہ ملکِ عدم ہیں ہم لوگ
دیکھئے کون سی منزل ہمیں اپناتی ہے
راندۂ میکدہ و دیر و حرم ہیں ہم لوگ
مسکراہٹ کو سمجھ لیتے ہیں دل کا پر تو
آشنا دہر کے انداز سے کم ہیں ہم لوگ
یاد آئیں گے زمانے کو ہم آتے آتے
اک تری بھولی ہوئی طرزِ ستم ہیں ہم لوگ
کوئی نسبت نہیں اربابِ نظر سے باقیؔ
سائے کی طرح پس ساغرِ جم ہیں ہم لوگ
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فہرست