ستم کے تیر چلے نیمچے قضا کے چلے

میر انیس


اشارے کیا نگۂ ناز دل ربا کے چلے
ستم کے تیر چلے نیمچے قضا کے چلے
گنہ کا بوجھ جو گردن پہ ہم اٹھا کے چلے
خدا کے آگے خجالت سے سر جھکا کے چلے
طلب سے عار ہے اللہ سے فقیروں کو
کہیں جو ہو گیا پھیرا صدا سنا کے چلے
پکارے کہتی تھی حسرت سے نعش عاشق کی
صنم کدھر کو ہمیں خاک میں ملا کے چلے
مثال ماہی بے آب موجیں تڑپا کیں
حباب پھوٹ کے روئے جو تم نہا کے چلے
مقام یوں ہوا اس کارگاہ دنیا میں
کہ جیسے دن کو مسافر سرا میں آ کے چلے
کسی کا دل نہ کیا ہم نے پائمال کبھی
چلے جو راہ تو چیونٹی کو بھی بچا کے چلے
ملا جنہیں انہیں افتادگی سے اوج ملا
انہیں نے کھائی ہے ٹھوکر جو سر اٹھا کے چلے
انیسؔ دم کا بھروسا نہیں ٹھہر جاؤ
چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلاتن
مجتث مثمن مخبون
فہرست