میر انیس


یگانہ چنگیزی


باقی صدیقی


جون ایلیا


جگر مراد آبادی


خواجہ میر درد


سراج الدین ظفر


عبدالحمید عدم

ساقی ذرا نگاہ ملا کر تو دیکھنا
کمبخت ہوش میں تو نہیں آ گیا ہوں میں
شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
محفل میں اس خیال سے پھر آ گیا ہوں میں
کیا اب حساب بھی تو مرا لے گا حشر میں
کیا یہ عتاب کم ہے یہاں آ گیا ہوں میں
نکلا تھا مے کدے سے کہ اب گھر چلوں عدمؔ
گھبرا کے سوئے مے کدہ پھر آ گیا ہوں میں
وہ سورج اتنا نزدیک آ رہا ہے
مری ہستی کا سایہ جا رہا ہے
خدا کا آسرا تم دے گئے تھے
خدا ہی آج تک کام آ رہا ہے
جوانی آئنہ لے کر کھڑی ہے
بہاروں کو پسینہ آ رہا ہے
غم فردا کا استقبال کرنے
خیال عہدِ ماضی آ رہا ہے
خدا محفوظ رکھے کشتیوں کو
بڑی شدت کا طوفاں آ رہا ہے
یہ کیسی سرگوشی ازل سازِ دل کے پردے ہلا رہی ہے
مری سماعت کھنک رہی ہے کہ تیری آواز آ رہی ہے
فسانہ خواں دیکھنا شب زندگی کا انجام تو نہیں ہے
کہ شمع کے ساتھ رفتہ رفتہ مجھے بھی کچھ نیند آ رہی ہے
اگر کوئی خاص چیز ہوتی تو خیر دامن بھگو بھی لیتے
شراب سے تو بہت پرانے مذاق کی باس آ رہی ہے
چلے تو خندہ مزاجی سے جا رہے تھے ہم
کسی حسین نے رستے میں آ کے مار دیا
رہِ حیات میں کچھ ایسے پیچ و خم تو نہ تھے
کسی حسین نے رستے میں آ کے مار دیا
امشب گریز و رم کا نہیں ہے کوئی محل
آغوش میں در آ کہ طبیعت اداس ہے

قمر جلالوی