ہنس کر فریب چشمِ کرم کھا گیا ہوں میں

عبدالحمید عدم


مطلب معاملات کا کچھ پا گیا ہوں میں
ہنس کر فریب چشمِ کرم کھا گیا ہوں میں
بس انتہا ہے چھوڑیے بس رہنے دیجیے
خود اپنے اعتماد سے شرما گیا ہوں میں
ساقی ذرا نگاہ ملا کر تو دیکھنا
کمبخت ہوش میں تو نہیں آ گیا ہوں میں
شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
محفل میں اس خیال سے پھر آ گیا ہوں میں
کیا اب حساب بھی تو مرا لے گا حشر میں
کیا یہ عتاب کم ہے یہاں آ گیا ہوں میں
میں عشق ہوں مرا بھلا کیا کام دار سے
وہ شرع تھی جسے وہاں لٹکا گیا ہوں میں
نکلا تھا مے کدے سے کہ اب گھر چلوں عدمؔ
گھبرا کے سوئے مے کدہ پھر آ گیا ہوں میں
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست