سامنے ان کے نہ بیٹھا جائے

باقی صدیقی


ایسے دل پر بھی کوئی کیا جائے
سامنے ان کے نہ بیٹھا جائے
اب ہحے وہ زخم نظر کا عالم
تیری جانب بھی نہ دیکھا جائے
کتنی سنسان ہے راہِ ہستی
نہ چلا جائے نہ ٹھہرا جائے
ہمر ہو گوش بر آواز رہو
کیا خبر کوئی خبر آ جائے
زندگی اڑتا ہوا سایہ ہے
آگے آگے ہی سرکتا جائے
آرزو دیر سے چپ ہے باقیؔ
در پہ دستک کوئی دیتا جائے
فاعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مسدس مخبون محذوف مسکن
فہرست