ایک طفاں کی ابتدا ہو جائے

باقی صدیقی


موج ساحل سے جب جدا ہو جائے
ایک طفاں کی ابتدا ہو جائے
لاکھ مجبوریاں سہی لیکن
آپ چاہیں تو کیا سے کیا ہو جائے
ہم ہیں جو روا نہیں لیکن
تم کہو جو وہی روا ہو جائے
تیری رحمت پہ اس قدر ہے یقین
جب خیال آئے اک خطا ہو جائے
دل انوکھا چراغ ہے باقیؔ
جب بجھے روشنی سوا ہو جائے
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
فہرست