لکھا ہے یہ خط میں کہ ہم آ رہے ہیں

اختر شیرانی


مری شامِ غم کو وہ بہلا رہے ہیں
لکھا ہے یہ خط میں کہ ہم آ رہے ہیں
ٹھہر جا ذرا اور اے دردِ فرقت
ہمارے تصور میں وہ آ رہے ہیں
غم عاقبت ہے نہ فکر زمانہ
پئے جا رہے ہیں جیے جا رہے ہیں
نہیں شکوۂ تشنگی مے کشوں کو
وہ آنکھوں سے مے خانے برسا رہے ہیں
وہ رشک بہار آنے والا ہے اخترؔ
کنول حسرتوں کے کھلے جا رہے ہیں
فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن
متقارب مثمن سالم
فہرست