اس طرح بے نیاز ہو سر کو جھکا کے بھول جا

سراج الدین ظفر


ذوقِ نمو کو منزل دوست میں آ کے بھول جا
اس طرح بے نیاز ہو سر کو جھکا کے بھول جا
داغِ فراق کے سوا حاصلِ عشق کچھ نہیں
پردۂ جان و دل میں یہ شمع جلا کے بھول جا
اس کے حریمِ ناز تک کوئی پہنچ سکا کہاں
راہ گزار شوق کی خاک اڑا کے بھول جا
حلقہ بگوش عشق ہو پھر نہ زوال ہے نہ موت
پیک قضا پہ آخری تیر چلا کے بھول جا
بزم میں اے نگاہِ دوست اس طرح اہلِ دل سے کھیل
اس کو مٹا کے بھول جا اس کو بنا کے بھول جا
آئے خزاں میں جو کبھی یاد تجھے بہار کی
ساغر چشمِ تر سے دو اشک بہا کے بھول جا
دل بھی خراب عشق ہے دل کو بھی دے سزائے شوق
اس کو بھی طور کی طرح آگ لگا کے بھول جا
حسرتِ دید میں جو ہے دید میں وہ مزہ نہیں
پردۂ روئے دوست اٹھا اور اٹھا کے بھول جا
تو بھی دیار دوست میں شوق کے زمزمے الاپ
بادِ شمال کی طرح ٹھوکریں کھا کے بھول جا
سطوت قیصرانہ کو شوکت خسروانہ کو
جامِ شراب عشق سے ہونٹ ملا کے بھول جا
میری غزل میں ہے ظفرؔ لطف بقدرِ ظرف ذوق
تو اسے گا کے جھوم اٹھ یا اسے گا کے بھول جا
مفتَعِلن مفاعِلن مفتَعِلن مفاعِلن
رجز مثمن مطوی مخبون
فہرست