ہوا کی زد میں ہے اپنا چراغ خانہ برسوں سے

سراج الدین ظفر


رہین بیم ہستی ہے دلِ دیوانہ برسوں سے
ہوا کی زد میں ہے اپنا چراغ خانہ برسوں سے
خوشا اے جوش حسرت اشک بھر آئے ہیں آنکھوں میں
ترستا تھا چراغاں کو مرا کاشانہ برسوں سے
یہ حسن و عشق افکار ازل کی یادگاریں ہیں
زبان دہر دہراتی ہے یہ افسانہ برسوں سے
جنونِ عشق کو معراج پر پہنچا دیا ہم نے
ہے اپنے چاک پیراہن میں اک ویرانہ برسوں سے
یہ حسرت ہے جوانی باریاب حسن ہو جائے
ہے آوارہ یہ موج نکہت مستانہ برسوں سے
جھکا دوں عرش و کرسی کو اگر وہ سامنے آئیں
لیے پھرتا ہوں شوق سجدۂ رندانہ برسوں سے
محبت میں ظفرؔ ہے بے خودی بھی شعلہ تابی بھی
مئے دوآتشہ پیتا ہوں میں روزانہ برسوں سے
فہرست