شمع کوئی خاموش ہوئی یا کوئی ستارا ٹوٹ گیا

سراج الدین ظفر


عشق میں کیا ہاتھوں سے کسی کے دامن ہستی چھوٹ گیا
شمع کوئی خاموش ہوئی یا کوئی ستارا ٹوٹ گیا
کھیل رہی ہے برق تبسم پھول سے نازک ہونٹوں پر
جانیے کس کی موت آئی ہے کس کا مقدر پھوٹ گیا
کون تھا یہ بیمارِ محبت جس کی بالیں پر آ کر
حسن بھی دریا دریا رویا عشق بھی سینہ کوٹ گیا
تیری بھی تصویر تھی اس میں اس کا مجھ کو رونا ہے
ورنہ دل کی ہستی کیا ہے شیشہ تھا سو ٹوٹ گیا
سیل محبت کے تھا مقابل دل کا حباب نازک بھی
لیکن یہ اب یاد نہیں ہے کب ابھرا کب پھوٹ گیا
عشق نے کیسی آفت ڈھائی سب میخانے خالی ہیں
کون و مکاں کی ساری مستی ان آنکھوں میں کوٹ گیا
آہ محبت کا رشتہ تھا نازک سے بھی نازک تر
اب اس کو کس طرح سے جوڑیں ٹوٹ گیا سو ٹوٹ گیا
اول اول ذوق محبت تھا مستی بے پایاں
آخر آخر وقت وہ آیا سحرِ محبت ٹوٹ گیا
ناز مری سرمستی کو کیا کیا تھا شراب و ساقی پر
اس کی آنکھوں کو جو دیکھا ہاتھ سے ساغر چھوٹ گیا
رات کسی کی بزم میں گو بیدار تھا میں ہشیار تھا میں
لیکن کوئی آنکھ بچا کر دل کی بستی لوٹ گیا
فہرست