مری ہستی کا سایہ جا رہا ہے

عبدالحمید عدم


وہ سورج اتنا نزدیک آ رہا ہے
مری ہستی کا سایہ جا رہا ہے
خدا کا آسرا تم دے گئے تھے
خدا ہی آج تک کام آ رہا ہے
بکھرنا اور پھر ان گیسوؤں کا
دو عالم پر اندھیرا چھا رہا ہے
جوانی آئنہ لے کر کھڑی ہے
بہاروں کو پسینہ آ رہا ہے
کچھ ایسے آئی ہے بادِ موافق
کنارا دور ہٹتا جا رہا ہے
غم فردا کا استقبال کرنے
خیال عہدِ ماضی آ رہا ہے
وہ اتنے بے مروت تو نہیں تھے
کوئی قصداً انہیں بہکا رہا ہے
کچھ اس پاکیزگی سے کی ہے توبہ
خیالوں پر نشہ سا چھا رہا ہے
ضرورت ہے کہ بڑھتی جا رہی ہے
زمانہ ہے کہ گھٹتا جا رہا ہے
ہجوم تشنگی کی روشنی میں
ضمیر مے کدہ تھرا رہا ہے
خدا محفوظ رکھے کشتیوں کو
بڑی شدت کا طوفاں آ رہا ہے
کوئی پچھلے پہر دریا کنارے
ستاروں کی دھنوں پر گا رہا ہے
ذرا آواز دینا زندگی کو
عدمؔ ارشاد کچھ فرما رہا ہے
مفاعیلن مفاعیلن فَعُولن
ہزج مسدس محذوف
فہرست