میر ببر علی انیس 1803ء میں فیض آباد، اتر پردیش، برطانوی ہندوستان (موجودہ بھارت) میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک مشہور ادبی خاندان سے تھا اور ان کے والد میر خلیق خود بھی ایک ممتاز شاعر تھے۔ انیس کے دادا میر حسن کی مشہور مثنوی "سحر البیان" اردو ادب کا شاہکار سمجھی جاتی ہے۔
میر انیس نے ابتدائی تعلیم فیض آباد میں حاصل کی اور بعد میں لکھنؤ منتقل ہو گئے۔ انہوں نے عربی، فارسی اور اردو میں مہارت حاصل کی اور مختلف علوم جیسے کہ طب، منطق، اور فلسفہ میں بھی ماہر تھے۔ ان کی والدہ ایک تعلیم یافتہ اور نیک خاتون تھیں جنہوں نے انیس کی تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔
انیس نے اپنی شاعری کا آغاز غزل سے کیا لیکن بعد میں اپنے والد کے مشورے پر مرثیہ نگاری کی طرف مائل ہو گئے۔ انیس نے مرثیہ کو نئے انداز میں پیش کیا اور اس میں میدان جنگ کے مناظر، کرداروں کی جذباتی کیفیات، اور اخلاقی تعلیمات کو شامل کیا۔ انہوں نے مرثیہ میں زبان اور بیان کی خوبصورتی کو بلند مقام تک پہنچایا۔ ان کے مرثیے میں غم کربلا کی تصویر کشی اتنی حقیقت پسندانہ ہوتی تھی کہ سننے والے خود کو میدان کربلا میں محسوس کرتے تھے۔
انیس کی زندگی میں مالی مشکلات بھی آئیں لیکن ان کی شہرت اور ادبی مقام کی بنا پر انہیں مختلف درباروں میں عزت دی گئی۔ ان کی مشہور معاصرت میرزا دبیر کے ساتھ تھی، اور دونوں نے مرثیہ نگاری میں اعلیٰ مقام حاصل کیا۔ ان کی یہ معاصرت لکھنؤ کے ادبی حلقوں میں مشہور تھی اور دونوں کے مداحوں نے ان کی عظمت کو تسلیم کیا۔
میر انیس کی تصانیف میں مرثیے، سلام، نوحے، اور رباعیات شامل ہیں۔ ان کے مشہور کاموں میں "کلیات میر انیس" اور "رباعیات میر انیس" شامل ہیں۔ ان کے مرثیے اردو ادب میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں اور آج بھی مرثیہ نگاری میں ان کی پیروی کی جاتی ہے۔
میر انیس کا انتقال 1874ء میں لکھنؤ میں ہوا۔ ان کی وفات کے بعد بھی ان کے مرثیے لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں اور ان کا کلام اردو ادب کا ایک اہم حصہ ہے۔