پوجوں میں اس کسی کو جو ہو آشنا پرست

مرزا رفیع سودا


ہندو ہیں بت پرست مسلماں خدا پرست
پوجوں میں اس کسی کو جو ہو آشنا پرست
اس دور میں گئی ہے مروت کی آنکھ پھوٹ
معدوم ہے جہان سے چشم حیا پرست
دیکھا ہے جب سے رنگ کفک تیرے پاؤں میں
آتش کو چھوڑ گبر ہوئے ہیں حنا پرست
چاہے کہ عکس دوست رہے تجھ میں جلوہ گر
آئینہ دار دل کو رکھ اپنے صفا پرست
آوارگی سے خوش ہوں میں اتنا کہ بعدِ مرگ
ہر ذرہ میری خاک کا ہو گا ہوا پرست
خاک فنا کو تاکہ پرستش تو کر سکے
جوں خضر مت کہائیو آب بقا پرست
سوداؔ سے شخص کے تئیں آزردہ کیجیے
اے خود پرست حیف نہیں تو وفا پرست
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست