غزل سرا
ہماری کتابیں
شعراء
رابطہ
اکاؤنٹ
رجسٹر
لاگ اِن
غزل سرا کے بارے میں
تلاش
مرزا غالب
جس قدر روحِ نباتی ہے جگرِ تشنۂِ ناز
دے ہے تسکیں بدم آب بقا موجِ شراب
مت ہوجیو اے سیلِ فنا ان سے مقابل
جانبازِ الم نقش بہ دامانِ بقا ہیں
مجھ کو وہ دو، کہ جسے کھا کے نہ پانی مانگوں
زہر کچھ اور سہی، آب بقا اور سہی
گھٹا اور برق سے کیوں کر گھٹاکر ان کو نسبت دیں
اسے ظلمات، اسے ہم چشمۂِ آب بقا سمجھے
بہادر شاہ ظفر
ہووے اک قطرہ جو زہراب محبت کا نصیب
خضر پھر تو چشمۂِ آب بقا کیا چیز ہے
ترے خنجر و تیغ کی آبِ رواں ہوئی جب کہ سبیل ستم زدگاں
گئے کتنے ہی قافلے خشک زباں کوئی تشنۂِ آب بقا نہ رہا
شیخ ابراہیم ذوق
تیری شمشیر خوں کے چھینٹوں سے
چھینٹے آب بقا سے لڑتی ہے
مصحفی غلام ہمدانی
مجھے خضر سے دو نہ جینے میں نسبت
کہ اس کی بہ آب بقا زندگی ہے
مرزا رفیع سودا
خاک فنا کو تاکہ پرستش تو کر سکے
جوں خضر مت کہائیو آب بقا پرست
میر انیس
خود نویدِ زندگی لائی قضا میرے لیے
شمعِ کشتہ ہوں فنا میں ہے بقا میرے لیے
سراج الدین ظفر
تیرا چراغ زندگی آخری سانس لے جہاں
عشق کے اس مقام کو دائرۂ بقا سمجھ
عرفان صدیقی
یاد آوران تشنہ دہانان کربلا
اس تشنگی کو چشمۂ آب بقا کریں
ہم پہلے تشنگی کی حدوں سے گزر تو جائیں
سارے سراب آب بقا ہونے والے ہیں
پیاسا نہ جان ان کو تو اے نہر کم نصیب
راہِ وفا میں آب بقا ان کے ساتھ ہے
الطاف حسین حالی
پیاسے ترے سرگشتہ ہیں جو راہِ طلب میں
ہونٹوں کو وہ کرتے نہیں تر آب بقا سے
رہرو تشنہ لب نہ گھبرانا
اب لیا چشمۂ بقا تو نے
احسان دانش
جرم سقراط سے ہٹ کر نہ سزا دو ہم کو
زہر رکھا ہے تو یہ آب بقا دو ہم کو
انبار ہر طرف ہیں اندھیروں کے یہ درست
شاید نہیں ہو آب بقا دیکھتے چلو
ضیا جالندھری
گو سر ارتقا و بقا میرا جسم ہے
سنتا ہوں تو فنا کی سدا میرا جسم ہے