بولتا ہے اس میں کیا وہ بولتا کیا چیز ہے

بہادر شاہ ظفر


دیکھو انساں خاک کا پتلا بنا کیا چیز ہے
بولتا ہے اس میں کیا وہ بولتا کیا چیز ہے
روبرو اس زلف کے دام بلا کیا چیز ہے
اس نگہ کے سامنے تیرِ قضا کیا چیز ہے
یوں تو ہیں سارے بتاں غارتگر ایمان و دیں
ایک وہ کافر صنم نامِ خدا کیا چیز ہے
جس نے دل میرا دیا دام محبت میں پھنسا
وہ نہیں معلوم مج کو ناصحا کیا چیز ہے
ہووے اک قطرہ جو زہراب محبت کا نصیب
خضر پھر تو چشمۂِ آب بقا کیا چیز ہے
مرگ ہی صحت ہے اس کی مرگ ہی اس کا علاج
عشق کا بیمار کیا جانے دوا کیا چیز ہے
دل مرا بیٹھا ہے لے کر پھر مجھی سے وہ نگار
پوچھتا ہے ہاتھ میں میرے بتا کیا چیز ہے
خاک سے پیدا ہوئے ہیں دیکھ رنگا رنگِ گل
ہے تو یہ ناچیز لیکن اس میں کیا کیا چیز ہے
جس کی تجھ کو جستجو ہے وہ تجھی میں ہے ظفرؔ
ڈھونڈتا پھر پھر کے تو پھر جا بجا کیا چیز ہے
فہرست