چوٹ دل کو جو لگے آہ
رسا پیدا ہو
صدمہ شیشہ کو جو پہنچے تو
صدا پیدا ہو
کشتۂِ تیغ جدائی ہوں یقیں ہے مجھ کو
عضو سے عضو قیامت میں
جدا پیدا ہو
ہم ہیں بیمارِ محبت یہ دعا مانگتے ہیں
مثل اکسیر نہ دنیا میں
دوا پیدا ہو
کہہ رہا ہے جرس قلب بآواز بلند
گم ہو رہبر تو ابھی راہِ
خدا پیدا ہو
کس کو پہنچا نہیں اے جان ترا فیضِ قدم
سنگ پر کیوں نہ نشانِ کفِ
پا پیدا ہو
مل گیا خاک میں پس پس کے حسینوں پر میں
قبر پر بوئیں کوئی چیز
حنا پیدا ہو
اشک تھم جائیں جو فرقت میں تو آہیں نکلیں
خشک ہو جائے جو پانی تو
ہوا پیدا ہو
یاں کچھ اسباب کے ہم بندے ہی محتاج نہیں
نہ زباں ہو تو کہاں نامِ
خدا پیدا ہو
گل تجھے دیکھ کے گلشن میں کہیں عمرِ دراز
شاخ کے بدلے وہیں دستِ
دعا پیدا ہو
بوسہ مانگا جو دہن کا تو وہ کیا کہنے لگے
تو بھی مانند دہن اب کہیں
نا پیدا ہو
نہ سر زلف ملا بل بے درازی تیری
رشتۂِ طولِ امل کا بھی
سرا پیدا ہو
کس طرح سچ ہے نہ خورشید کو رجعت ہو جائے
تجھ سا آفاق میں جب ماہ
لقا پیدا ہو
ابھی خورشید جو چھپ جائے تو ذرات کہاں
تو ہی پنہاں ہو تو پھر کون
بھلا پیدا ہو
کیا مبارک ہے مرا دستِ جنوں اے ناسخؔ
بیضۂِ بوم بھی ٹوٹے تو
ہما پیدا ہو