جنگل میں زندہ کوئی ہوا کے سوا نہ تھا

عرفان صدیقی


نوحہ گزار ہوٗ کی صدا کے سوا نہ تھا
جنگل میں زندہ کوئی ہوا کے سوا نہ تھا
پل بھر میں سیم تاب تو پل بھر میں لالہ رنگ
وہ دشت اک طلسم سرا کے سوا نہ تھا
ان کی ظفر پہ جیش حریفاں تھی حیرتی
ان کی طرف تو کوئی خدا کے سوا نہ تھا
کار آفریں کے دستِ بریدہ کی دسترس
اک فرض تھا کہ عرضِ وفا کے سوا نہ تھا
کیا قافلہ گیا ہے ادھر سے کہ جس کے ساتھ
کچھ ساز و برگ شور درا کے سوا نہ تھا
زیرِ قدم تھی دور تلک خاک ناسپاس
سر پر کچھ آسماں کی ردا کے سوا نہ تھا
اک سیلِ خوں تھا اور خدا کی زمین پر
کوئی گواہ تیغِ جفا کے سوا نہ تھا
یہ چشمِ کم نظر تہہ خنجر کہے جسے
کچھ بھی گلوئے صبر و رضا کے سوا نہ تھا
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست