ہم ہو گئے دنیا سے خفا اور زیادہ

باقی صدیقی


دل تیری اداؤں سے کھچا اور زیادہ
ہم ہو گئے دنیا سے خفا اور زیادہ
دل خون ہوا جاتا ہے دنیا کی ادا سے
یہ رنگ جما جتنا ارا اور زیادہ
کیا داغ جلے دل کے بہ انداز چراغاں
احساس اندھیرے کا ہوا اور زیادہ
اس طرح مرے منہ پہ کوئی ہاتھ نہ رکھے
اس طرح تو گونجے گی صدا اور زیادہ
اب صورت آوارہ صدا، دل سے گزرنا
اب ٹھہرے تو چیخے گا خلا اور زیادہ
جب پڑتا ہے پھولوں پہ ترے حسن کا پرتو
گلشن میں مچلتی ہے صبا اور زیادہ
اس طرح وہ بت آیا مری راہ میں باقیؔ
یاد آنے لگا مجھ کو خدا اور زیادہ
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست