سوچئے وہ شہر کیا ہو گا جہاں میں ہی نہیں

عرفان صدیقی


دیکھئے جو دشت زندہ ہے دم آہو سے ہے
سوچئے وہ شہر کیا ہو گا جہاں میں ہی نہیں
خار و خس بھی ہیں تری موجِ ہوا کے شکوہ سنج
باغ میں اے موسم نامہرباں میں ہی نہیں
اب ادھورا چھوڑنا ممکن نہیں اے قصہ گو
ساری دنیا سن رہی ہے داستاں میں ہی نہیں
سایۂ آسیب کوئی دوسرے گھر میں بھی ہے
ہاں گرفتار شبِ وہم و گماں میں ہی نہیں
تیرے رک جانے سے یہ لشکر بھی پیاسا مر نہ جائے
تشنہ لب صحرا میں اے جوئے رواں میں ہی نہیں
اختر الایمان کی اک نظم سے مجھ پر کھلا
اور بھی کم گو ہیں مجبورِ فغاں میں ہی نہیں
کوئی انشا کر رہا ہے مصحف آئندگاں
لکھ رہی ہیں لکھنے والی انگلیاں میں ہی نہیں
رنج اس کا ہے کہ کس کو رائیگاں کرتا ہے کون
ورنہ اس آشوب جاں میں رائیگاں میں ہی نہیں
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن
رمل مثمن محذوف
فہرست