مرزا غالب


امام بخش ناسخ


انشاء اللہ خان انشا


بہادر شاہ ظفر


حیدر علی آتش


داغ دہلوی


مصحفی غلام ہمدانی


مصطفٰی خان شیفتہ


میر مہدی مجروح


فیض احمد فیض


مرزا رفیع سودا


یگانہ چنگیزی


باقی صدیقی

حالات نے اس طرح جکڑ رکھا ہے باقیؔ
جو کچھ بھی دکھاتا ہے جہاں دیکھ رہے ہیں
کیا تم سے گلہ کہ مہرباں ہو
جیتے رہو، خوش رہو، جہاں ہو
ہمیں کوئی نہ آسرا ملتا
بے اماں ہوتے ہم جہاں ہوتے
غم اور خوشی کے راستے آ کر جہاں ملے
کچھ مہرباں جدا ہوئے کچھ مہرباں ملے
باقیؔ نہ تھی اگرچہ فریب وفاکی تاب
پھر بھی رکے نقوش محبت جہاں ملے
اک نہ اک زخم رہا پیشِ نظر
تم نہ یاد آئے جہاں یاد آیا
آپ کی یا جہاں کی بات کریں
کون سے مہرباں کی بات کریں
ہو چکیں اس جہان کی باتیں
اب کوئی اس جہاں کی بات کریں
دلِ شوریدہ سے الجھا تھا کوئی
تم تھے یا درد جہاں یاد نہیں
باقیؔ جو چپ رہو گے تو اٹھیں گی انگلیاں
ہے بلونا بھی رسم جہاں بولتے رہو
لو دلوں کی حدیں سمٹنے لگیں
تنگ ہے کس قدر جہاں دیکھو
یہی جہاں تھا، یہی گردش جہاں تھی کبھی
وہ مہرباں تھے تو ہر چیز مہرباں تھی کبھی
کبھی کبھی مجھے باقیؔ خیال آتا ہے
وہاں نہیں ہے مری زندگی جہاں تھی کبھی
یہی جہاں تھا، یہی گردش جہاں تھی کبھی
تو مہرباں تھا تو دنیا بھی مہرباں تھی کبھی
کبھی کبھی مجھے باقیؔ خیال آتا ہے
وہاں ہیں ہے مری زندگی جہاں تھی کبھی
ہم تو دنیا سے بدگماں ٹھہرے
آگے دل کی خوشی جہاں ٹھہرے
گردشِ دہر ساتھ ساتھ رہی
ہم جدھر بھی گئے ، جہاں ٹھہرے
دل کا یا جی کا زیاں کرنا پڑے
کچھ نہ کچھ نذر جہاں کرنا پڑے
باقیؔ ستمگروں کی ادائے ستم نہ پوچھ
زنداں وہیں بنائے نشیمن جہاں جلے
یہ رخ بھی کش مکش زندگی کا دیکھا ہے
جہاں کی بات نہ کی اور جہاں کے ساتھ چلے
زمانے کی حقیقت خود بخود کل جائے گی باقیؔ
چلا چل تو بھی وہ تیرا جہاں تک ساتھ دیتا ہے

جون ایلیا


جگر مراد آبادی


خواجہ میر درد


قمر جلالوی


عرفان صدیقی


مجید امجد