ہم بھی یہ سمجھتے ہیں کہ جی ہے تو جہاں ہے

مرزا رفیع سودا


دل لے کے ہمارا جو کوئی طالب جاں ہے
ہم بھی یہ سمجھتے ہیں کہ جی ہے تو جہاں ہے
ہر ایک کے دکھ درد کا اب ذکر و بیاں ہے
مجھ کو بھی ہو رخصت مرے بھی منہ میں زباں ہے
اس عشق کے ہے تو ہی سزا وار کہ ہر ایک
دل دے کے ترے نام کو جویائے نشاں ہے
جویندۂ ہر چیز ہے یابندہ جہاں میں
جز عمرِ گزشتہ کہ وہ ڈھونڈو تو کہاں ہے
پیری جو تو جاؤے تو جوانی سے یہ کہنا
خوش رہیو مری جان تو جیدھر ہے جہاں ہے
پہنچا نہ کوئی مرغ کبھو اپنے چمن تک
جز طائر حسرت کہ وہ یاں بال فشاں ہے
تجھ سے تو کسو طرح مرا کچھ نہیں چلتا
جز خون کہ آنکھوں سے شب و روز رواں ہے
ساقی تو نظر کیجیو ٹک صبحِ چمن کو
اس پیر کے جلوے کا بھلا کوئی جواں ہے
سوداؔ کا ترے دشت میں طفلاں سے ہے یہ حال
جیدھر وہ کھڑا ہووے تو جوں سنگِ نشاں ہے
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست