مرزا غالب


امام بخش ناسخ


بہادر شاہ ظفر


حیدر علی آتش


داغ دہلوی


شیخ ابراہیم ذوق


مصحفی غلام ہمدانی


مصطفٰی خان شیفتہ


مومن خان مومن


میر مہدی مجروح


فیض احمد فیض


مرزا رفیع سودا


یگانہ چنگیزی


باقی صدیقی


جون ایلیا


جگر مراد آبادی


سراج الدین ظفر


عبدالحمید عدم


قمر جلالوی


شکیب جلالی


عرفان صدیقی

ہر طرف ڈوبتے سورج کا سماں دیکھئے گا
اک ذرا منظرِ غرقابی جاں دیکھئے گا
وہ ہلالِ ماہِ وصال ہے دلِ مہرباں اسے دیکھنا
پسِ شامِ تن جو پکارنا سرِ بام جاں اسے دیکھنا
چراغ دینے لگے گا دھواں، نہ چھوِ لینا
تو میرا جسم کہیں میری جاں نہ چھوِ لینا
رختِ سفر اٹھا گیا کون سرائے خواب سے
رات پھر اس نواح میں گریۂ جاں بہت ہوا
عجیب شخص تھا، بچتا بھی تھا حوادث سے
پھر اپنے جسم پہ الزامِ جاں بھی رکھتا تھا
جو کبھی تو نے کہا اور نہ کبھی ہم نے سنا
وہی اک لفظ تو سرنامۂ جاں ہے جاناں
لو، میں راز ہنر چارہ گراں کھولتا ہوں
تنگ آیا ہوں سو پیراہن جاں کھولتا ہوں
جسم کی رسمیات اور دل کے معاملات اور
بیعتِ دست ہاں ضرور، بیعتِ جاں نہیں نہیں
تم جو عرفانؔ یہ سب دردِ نہاں لکھتے ہو
کون ہے جس کے لیے نامۂ جاں لکھتے ہو
ایک بار اور مرے سینے پر رکھ پھول سا ہاتھ
ایک دستک پہ یہ دروازۂ جاں کیسے کھلے
شہر میں گلبدناں، سیم تناں تھے کتنے
راہ زن درپئے نقدِ دل و جاں تھے کتنے
مرا چراغ تو جانے کہاں سے آتا ہے
مگر اجالا مرے سوز جاں سے آتا ہے
اے مرے طائرِ جاں کس کی طرف دیکھتا ہے
ناوکِ کور کماں کس کی طرف دیکھتا ہے
تو یہاں تھا تو بہت کچھ تھا اسی شہر کے پاس
اب جو کچھ ہے وہ مرے قریۂ جاں جیسا ہے
وادی ہو میں پہنچتا ہوں بیک جستِ خیال
دشتِ افلاک مری وحشتِ جاں سے کم ہے
زیرِ محراب نہ بالائے مکاں بولتی ہے
خامشی آ کے سر خلوتِ جاں بولتی ہے
زمیں سے اٹھ کے مری خاک جاں کہاں جائے
یہ نامراد ہنوز آسماں کہاں جائے
زمیں سے اٹھ کے مری خاک جاں کہاں جائے
یہ نامراد تہِ آسماں کہاں جائے

مجید امجد