کر دیجے زمیں و آسماں ایک

مصحفی غلام ہمدانی


گر ہم سے نہ ہو وہ دل ستاں ایک
کر دیجے زمیں و آسماں ایک
عاشق کا ترے ہمارے غم نے
چھوڑا نہ بدن میں استخواں ایک
ہم چھوٹ کے جب قفس سے آئے
دیکھا نہ چمن میں آشیاں ایک
کہتی تھی خلق رہ اے زلیخا
کنعاں سے چلا ہے کارواں ایک
یک رنگی کہیں ہیں کس کو، یعنی
دو شخص کا ہووے جسم و جاں ایک
سازش کسی ڈھب سے کر بھی لیجے
اس در پہ جو ہووے پاسباں ایک
ہے واں تو نیا رقیب ہر دم
ہونے پاتے ہیں ہم کہاں ایک
حسرت ہے کہ یوں لٹے چمن اور
گل ہم کو نہ دیوے باغباں ایک
آہستہ کہ قافلے کے پیچھے
آتا ہے غریب ناتواں ایک
ہم کرتے ہیں سو زباں سے باتیں
یوں کہنے کو منہ میں ہے زباں ایک
اس پر بھی اے مصحفیؔ ہمارا
قصہ ایک اور ہے داستاں ایک
مفعول مفاعِلن فَعُولن
ہزج مسدس اخرب مقبوض محذوف
فہرست