مرزا غالب


امام بخش ناسخ


انشاء اللہ خان انشا


بہادر شاہ ظفر


حیدر علی آتش


داغ دہلوی

نئی تاکید ہے ضبط محبت کی وہ کہتے ہیں
جگر ہو تو فغاں کیوں ہو دہن ہو تو زباں کیوں ہو
کس طرح جان دینے کے اقرار سے پھروں
میری زبان ہے یہ تمہاری زباں نہیں
یقیں ہے کہ ہو جائے آخر کو سچی
مرے منہ میں تیری زباں آتے آتے
نہیں کھیل اے داغؔ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے
کھلتے نہیں ہیں راز جو سوزِ نہاں کے ہیں
کیا پھوٹنے کے واسطے چھالے زباں کے ہیں
ناصح کے سامنے کبھی سچ بولتا نہیں
میری زباں میں رنگ تمہاری زباں کے ہیں
کیسا جواب حضرتِ دل دیکھیے ذرا
پیغام بر کے ہاتھ میں ٹکڑے زباں کے ہیں
پیغام بر کی بات پر آپس میں رنج کیا
میری زباں کی ہے نہ تمہاری زباں کی ہے
قاصد کی گفتگو سے تسلی ہو کس طرح
چھپتی نہیں وہ بات جو تیری زباں کی ہے
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
پکارتی ہے خموشی مری فغاں کی طرح
نگاہیں کہتی ہیں سب رازِ دل زباں کی طرح
مزے ہیں اس دہن زخم کے لیے کیا کیا
جو چوسے تیر کے پیکان کو زباں کی طرح
شب اس کی بزم میں تھا شمع پر بھی رشک ہمیں
کہ منہ میں شعلے کو گلگیر لے زباں کی طرح

مصحفی غلام ہمدانی


مصطفٰی خان شیفتہ


مومن خان مومن


میر مہدی مجروح


فیض احمد فیض


مرزا رفیع سودا


میر انیس


یگانہ چنگیزی


باقی صدیقی


جون ایلیا


جگر مراد آبادی


خواجہ میر درد


سراج الدین ظفر


قمر جلالوی


شکیب جلالی


عرفان صدیقی