بازار دہر میں تری منزل
کہاں نہ تھی
یوسف نہ جس میں ہو کوئی ایسی
دکاں نہ تھی
زردی نے میرے رنگ کی مجھ کو رلا دیا
ہنسوائے جو کسی کو یہ وہ
زعفراں نہ تھی
ظاہر سے خوب رویوں کا باطن خلاف تھا
شیریں لبوں کی طرح سے ان کی
زباں نہ تھی
منزل ہی دور ہے جو یہ پہنچی نہیں ہنوز
دم لینے والی راہ میں عمرِ
رواں نہ تھی
دکھلائی سیر آنکھوں کو بام مراد کی
ایسی کوئی کمند کوئی
نردباں نہ تھی
قوسِ قزح سے ہم نے بھی تشبیہ دی اسے
چلہ نہ ہونے سے جو وہ ابرو
کماں نہ تھی
آگاہ جذبِ عشق زلیخا سے تھا نہ حسن
یوسف کو چاہ میں خبر
کارواں نہ تھی
یاد آ گئی جو سلکِ گہر تیرے گوش کی
سوہان روح تھی مجھے شب
کہکشاں نہ تھی
رہ جانا پیچھے جسم کا جاں سے عجب نہیں
کس کارواں کی گرد پسِ
کارواں نہ تھی
نا فہمی کی دلیل ہے یہ سجدہ سے آیا
ابلیس کو حقیقت آدم
عیاں نہ تھی
عاشق کے سر کے ساتھ ہے سودائے کوئے یار
مومن نہ تھا وہ جس کو ہوائے
جناں نہ تھی
بانگ جرس سے آگے ہر اک کا قدم رہا
گرد اپنے کارواں کے پسِ
کارواں نہ تھی
افسوس کیا جوانی رفتہ کا کیجیے
وہ کون سی بہار تھی جس کو
خزاں نہ تھی
نالوں سے ایک دن نہ کیے گرم گوش یار
آتشؔ مگر تمہارے دہن میں
زباں نہ تھی