یہ جامہ قطع ہے ترے اندام کے لیے

حیدر علی آتش


ناز و ادا ہے تجھ سے دل آرام کے لیے
یہ جامہ قطع ہے ترے اندام کے لیے
وحشت میں کعبے کو جو گیا کوئے یار سے
لتے جنوں نے جامۂِ احرام کے لیے
عاشق ہوں ہر طرح سے گنہ گار ہوں ترا
حاجت قصور کی نہیں الزام کے لیے
کیا کیا جپے گی کیسا رٹے گی زباں اسے
تسبیح ہم نے لی ہے ترے نام کے لیے
طفلی کے گریہ کا یہ کھلا حال وقت مرگ
آغاز ہی میں روتے تھے انجام کے لیے
اچھا نہیں مقابلہ اس چشم شوخ سے
اک دن شکست فاش ہے بادام کے لیے
وہ نونہال آئے الٰہی مراد پر
حاصل ہو پختگی ثمر خام کے لیے
ہر چند اپنا نامۂِ عصیاں سیاہ ہو
ہو گا سفید صبح ہے ہر شام کے لیے
نامرد اور مرد میں اتنا ہی فرق ہے
وہ نان کے لیے مرے یہ نام کے لیے
مثل کمند اپنی رسائی ہوئی اگر
اے قصر یار بوسے لبِ بام کے لیے
کیا چشمِ مست یار سے تشبیہ دیجیے
کیفیت نگاہ نہیں جام کے لیے
رکھوا کے زلفیں یار نے لاکھوں ہی مرغِ دل
پیدا کیے ہیں کشمکش دام کے لیے
دل میں سوائے یار جگہ ہو نہ غیر کی
خلوت سرائے خاص نہیں عام کے لیے
جاتا ہے بہر غسل جو اے خوش دماغ تو
جلتا ہے عود گرمی حمام کے لیے
آتشؔ جو چاہے پائے توکل کے محکمے
جو صبح کو ملے نہ رہے شام کے لیے
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست