مرزا غالب


امام بخش ناسخ


حیدر علی آتش


شیخ ابراہیم ذوق


مصحفی غلام ہمدانی


میر مہدی مجروح


فیض احمد فیض


مرزا رفیع سودا


باقی صدیقی


جگر مراد آبادی


شکیب جلالی


عرفان صدیقی

یہی دنیا ہے تو اس تیغِ مکافات کی دھار
ایک دن گردنِ خنجر پہ رواں دیکھئے گا
ڈبو دیا ہے تو اب اس کا کیا گلہ کیجیے
یہی بہاؤ سفینے رواں بھی رکھتا تھا
کیوں تعاقب کر رہی ہے تشنگی‘ اے تشنگی
کیا کوئی خیمہ سر آبِ رواں میرا بھی تھا
موجِ گل ہے نہ کہیں آبِ رواں ہے جاناں
ساتھ ہے کوئی تو عمر گزراں ہے جاناں
گرمیِ شوق کا صلہ دشت کی سلطنت غلط
چشمۂ خوں کا خوں بہا جوئے رواں نہیں نہیں
تیرے رک جانے سے یہ لشکر بھی پیاسا مر نہ جائے
تشنہ لب صحرا میں اے جوئے رواں میں ہی نہیں
سایہ نکلے گا جو پیکر نظر آتا ہے تمہیں
وہم ٹھہرے گا جسے سروِ رواں لکھتے ہو
پہاڑ راستہ روکے تو ان سے عرض کرو
رکے اگر کوئی جوئے رواں علیؑ سے کہو
کچھ دور تو بہتے چلے جائیں گے بھنور تک
کچھ دیر سر آبِ رواں عیش کریں گے
کیسا موسم ہے کوئی پیاس کا رشتہ بھی نہیں
میں بیاباں ہوں، نہ وہ ابرِ رواں جیسا ہے
یہاں سے پیاسوں کے خیمے تو اٹھ گئے کب کے
یہ کیوں رکی ہوئی جوئے رواں ابھی تک ہے
ساعتِ وصل بھی عمر گزراں سے کم ہے
کیا سمندر ہے کہ اک موجِ رواں سے کم ہے

مجید امجد