کس حال میں قافلہ رواں ہے

باقی صدیقی


آوازِ جرس ہے یا فغان ہے
کس حال میں قافلہ رواں ہے
اٹھتے اٹھتے اٹھیں گے پردے
صدیوں کا غبار درمیاں ہے
کس کس سے بچائے کوئی دل کو
ہر گام پہ ایک مہرباں ہے
ہر چند زمیں زمیں ہے لیکن
تم ساتھ چلو تو آسماں ہے
ضو صبح کی چھو رہی ہے دل کو
ہر چند کہ رات درمیاں ہے
ہم ہوں کہ ہو گردِ راہ باقیؔ
منزل ہے اسی کی جو رواں ہے
مفعول مفاعِلن فَعُولن
ہزج مسدس اخرب مقبوض محذوف
فہرست