خوب دیکھا تو پھر کہاں ہیں ہم

مصحفی غلام ہمدانی


یادگار گزشتگاں ہیں ہم
خوب دیکھا تو پھر کہاں ہیں ہم
شمع کی طرح بزم گیتی میں
داغ بیٹھے ہیں اور رواں ہیں ہم
رہے جاتے ہیں پیچھے یاروں سے
گرد دنبال کارواں ہیں ہم
رکھ نہ خنجر کو ہاتھ سے قاتل
تیرے کشتوں میں نیم جاں ہیں ہم
آبیار سخن ہے اپنی زباں
لفظ و معنی کے باغباں ہیں ہم
تو ہی تو ہے جو خوب غور کریں
ایک دھوکا سا درمیاں ہیں ہم
دعوت تیغ کے تو قابل ہیں
گو کہ یک مشتِ استخواں ہیں ہم
رنگِ رخ پر ہمارے ، زردی سی
نظر آتی ہے ، کیا خزاں ہیں ہم
گو کیا ہم کو سرد پیری نے
پر ابھی طبع میں جواں ہیں ہم
اور بھی ہم کو رہنے دے چندے
گو تری طبع پر گراں ہیں ہم
باغباں اب چمن سے جاویں کہاں
بلبل کہنہ آشیاں ہیں ہم
مصحفیؔ شاعری رہی ہے کہاں
اب تو مجلس کے روضہ خواں ہیں ہم
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
فہرست