چمن میں رہنے دے کون
آشیاں نہیں معلوم
نہال کس کو کرے
باغباں نہیں معلوم
مرے صنم کا کسی کو
مکاں نہیں معلوم
خدا کا نام سنا ہے
نشاں نہیں معلوم
اخیر ہو گئے غفلت میں دن جوانی کے
بہار عمر ہوئی کب
خزاں نہیں معلوم
یہ اشتیاق شہادت میں محو تھا دمِ قتل
لگے ہیں زخمِ بدن پر
کہاں نہیں معلوم
سنا جو ذکر الٰہی تو اس صنم نے کہا
عیاں کو جانتے ہیں ہم
نہاں نہیں معلوم
کیا ہے کس نے طریق سلوک سے آگاہ
مرید کس کا ہے پیرِ
مغاں نہیں معلوم
مری طرح تو نہیں اس کو عشق کا آزار
یہ زرد رہتی ہے کیوں
زعفراں نہیں معلوم
جہان و کارِ جہاں سے ہوں بے خبر میں مست
زمیں کدھر ہے کہاں
آسماں نہیں معلوم
سپرد کس کے مرے بعد ہو امانت عشق
اٹھائے کون یہ نار
گراں نہیں معلوم
خموش ایسا ہوا ہوں میں کم دماغی سے
دہن میں ہے کہ نہیں ہے
زباں نہیں معلوم
مری تمہاری محبت ہے شہرۂِ آفاق
کسے حقیقت ماہ و
کتاں نہیں معلوم
کس آئینہ میں نہیں جلوہ گر تری تمثال
تجھے سمجھتے ہیں ہم این و
آں نہیں معلوم
ملا تھا خضر کو کس طرح چشمۂ حیواں
ہمیں تو یار کا اپنے
دہاں نہیں معلوم
کھلی ہے خانۂِ صیاد میں ہماری آنکھ
قفس کو جانتے ہیں
آشیاں نہیں معلوم
طریق عشق میں دیوانہ وار پھرتا ہوں
خبر گڑھے کی نہیں ہے
کنواں نہیں معلوم
جو ہو تو شوق ہی ہو کوئے یار کا ہادی
کسی کو ورنہ سبیل
جناں نہیں معلوم
دہن میں آپ کے البتہ ہم کو حجت ہے
کمر کا بھید جو پوچھوں
میاں نہیں معلوم
نسیمِ صبح نے کیسا یہ اس کو بھڑکایا
ہنوز آتشِ گل کا
دھواں نہیں معلوم
سنیں گے واقعہ اس کا زبان سوسن سے
شہید کس کا ہے یہ
ارغواں نہیں معلوم
کنارِ آب چلے دورِ جام یا لب کشت
شکار ہووے بطِ مے
کہاں نہیں معلوم
رسائی جس کی نہیں اے صنم درِ دل تک
یقیں ہے اس کو ترا
آستاں نہیں معلوم
عجب نہیں ہے جو اہلِ سخن ہوں گوشہ نشیں
کسی دہن میں زباں کا
مکاں نہیں معلوم
چھٹیں گے زیست کے پھندے سے کس دن اے آتشؔ
جنازہ ہو گا کب اپنا
رواں نہیں معلوم