حباب آسا میں دم بھرتا ہوں تیری
آشنائی کا
نہایت غم ہے اس قطرے کو دریا کی
جدائی کا
اسیر اے دوست تیرے عاشق و معشوق دونوں ہیں
گرفتار آہنی زنجیر کا یہ وہ
طلائی کا
تعلق روح سے مجھ کو جسد کا نا گوارا ہے
زمانے میں چلن ہے چار دن کی
آشنائی کا
فراقِ یار میں مر مر کے آخر زندگانی کے
رہا صدمہ ہمیشہ روح و قالب کی
جدائی کا
ہوئی منظور محتاجی نہ تجھ کو اپنی سائل کے
بنایا کاسۂِ سر واژگوں کاسہ
گدائی کا
نظر آتی ہیں ہر سو صورتیں ہی صورتیں مجھ کو
کوئی آئینہ خانہ کارخانہ ہے
جدائی کا
وصالِ یار کا وعدہ ہے فردائے قیامت پر
یقیں مجھ کو نہیں ہے گور تک اپنی
رسائی کا
بھروسا آہِ پر ہرگز نہیں اے یار عاشق کو
شکار اب تک کہیں دیکھا نہیں تیر
ہوائی کا
دکھایا حسن سے اعجاز موسی کلک قدرت نے
یدِ بیضا بنایا چور انگشتِ
حنائی کا
نہیں مٹتی ہے پتھر کی لکیر احباب کہتے ہیں
رہے گا پائے بت پر نقش اپنی جبہہ
سائی کا
شکست خاطر احباب ہوتی ہے درست اس سے
توجہ میں تری اے یار اثر ہے
مومیائی کا
دل اپنا آئینہ سے صاف عشق پاک رکھتا ہے
تماشا دیکھتا ہے حسن اس میں خود
نمائی کا
کفِ افسوس ملواتی ہے تیری پاک دامانی
پنہا کر شاہد عصمت کو جامہ
پارسائی کا
نہیں دیکھا ہے لیکن تجھ کو پہچانا ہے آتشؔ نے
بجا ہے اے صنم جو تجھ کو دعویٰ ہے
خدائی کا