غزل سرا
ہماری کتابیں
شعراء
رابطہ
اکاؤنٹ
رجسٹر
لاگ اِن
غزل سرا کے بارے میں
تلاش
مرزا غالب
نہ دے نامے کو اتنا طول غالب، مختصر لکھ دے
کہ حسرت سنج ہوں عرضِ ستم ہائے جدائی کا
امام بخش ناسخ
عاشقی میں جو مزہ ہے تو یہی فرقت ہے
لطف کیا تھا جو اگر اس سے جدائی ہوتی
بہادر شاہ ظفر
واں رسائی نہیں تو پھر کیا ہے
یہ جدائی نہیں تو پھر کیا ہے
حیدر علی آتش
حباب آسا میں دم بھرتا ہوں تیری آشنائی کا
نہایت غم ہے اس قطرے کو دریا کی جدائی کا
فراقِ یار میں مر مر کے آخر زندگانی کے
رہا صدمہ ہمیشہ روح و قالب کی جدائی کا
نظر آتی ہیں ہر سو صورتیں ہی صورتیں مجھ کو
کوئی آئینہ خانہ کارخانہ ہے جدائی کا
داغ دہلوی
ایک دن مل کے پھر نہیں ملتے
کس قیامت کی یہ جدائی ہے
داغؔ اب وصل کا وصال ہوا
یار زندہ غم جدائی ہے
کٹ سکے سختی ایام جدائی کیونکر
غیر کو آئے الٰہی مری آئی کیونکر
شیخ ابراہیم ذوق
لاکھ دیتا فلک آزار گوارہ تھے مگر
ایک تیرا نہ مجھے دردِ جدائی دیتا
مصحفی غلام ہمدانی
دل کے نگر میں چار طرف جب غم کی دہائی بیٹھ گئی
سر پہ ہمارے دستِ قضا سے تیغ جدائی بیٹھ گئی
مصطفٰی خان شیفتہ
وصل میں کس طرح ہوں شادی مرگ
مجھ کو طاقت نہیں جدائی کی
تھا غیر کا جو رنجِ جدائی تمام شب
نیند ان کو میرے ساتھ نہ آئی تمام شب
افسانے سے بگاڑ ہے ، ان بن ہے خواب سے
ہے فکرِ وصل و ذکرِ جدائی تمام شب
مومن خان مومن
تھی وصل میں بھی فکر جدائی تمام شب
وہ آئے تو بھی نیند نہ آئی تمام شب
کہتا ہے مہروش تمہیں کیوں غیر گر نہیں
دن بھر ہمیشہ وصل جدائی تمام شب
یگانہ چنگیزی
رہا کیا جب دلوں میں فرق آیا
اسی دن سے جدائی ہو چکی بس
باقی صدیقی
اے خیال ہجوم ہم سفراں
تو بھی داغ جدائی دینے لگا
جون ایلیا
حالت وصل میں بھی ہم دونوں
لمحہ لمحہ جدائی کرتے ہیں
آپ جو میری جاں ہیں میں دل ہوں
مجھ سے کیسے جدائی کرتے ہیں
وہ جو تھا جونؔ وہ کہیں بھی نہ تھا
حسن اک خواب کی جدائی ہے
لمحے لمحے کی نارسائی ہے
زندگی حالت جدائی ہے