سر پہ ہمارے دستِ قضا سے تیغ جدائی بیٹھ گئی

مصحفی غلام ہمدانی


دل کے نگر میں چار طرف جب غم کی دہائی بیٹھ گئی
سر پہ ہمارے دستِ قضا سے تیغ جدائی بیٹھ گئی
ہم ہیں فقیر اللہ کے یارو پھر اس کا ہے پریکھا کیا
گر ہم پاس بھی آ کر کوئی بہنی مائی بیٹھ گئی
سن کے ادائے غم کی تیرے صبر و شکیب ہیں بھاگنے پر
پاؤں ٹھہرنے مشکل ہیں جب دھاک پرائی بیٹھ گئی
اے دل اس بانکیت سے ہرگز شغل نہ کر تو لکڑی کا
ہاتھ قلم ہے پھر تیرا گر ایک بھی گھائی بیٹھ گئی
تیغِ جفا لی میان سے اپنے جب اس جان کے دشمن نے
سر کو جھکا کر اپنے اپنے ، ساری خدائی بیٹھ گئی
مصحفیؔ کیا پوچھے ہے دوانے حال صفائے دل کا مرے
تھا تو یہ آئینہ روشن پر اب کائی بیٹھ گئی
فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فع
بحرِ ہندی/ متقارب مثمن مضاعف
فہرست