پھر شبِ غم نے مجھے شکل
دکھائی کیونکر
یہ بلا گھر سے نکالی ہوئی
آئی کیونکر
کٹ سکے سختی ایام
جدائی کیونکر
غیر کو آئے الٰہی مری
آئی کیونکر
تو نے کی غیر سے کل میری
برائی کیونکر
گر نہ تھی دل میں تو لب پر ترے
آئی کیونکر
نہ کہوں گا نہ کہوں گا نہ کہوں گا ہرگز
جا کے اس بزم میں شامت مری
آئی کیونکر
کھل گئی بات جب ان کی تو وہ پوچھتے ہیں
منہ سے نکلی ہوئی ہوتی ہے
پرائی کیونکر
دادخواہوں سے وہ کہتے ہیں کہ ہم بھی تو سنیں
دوگے تم حشر میں سب مل کے
دہائی کیونکر
تم دل آزار و ستم گر نہیں میں نے مانا
مان جائے گی اسے ساری
خدائی کیونکر
ناگہاں شکوۂِ بیداد تو کر بیٹھے ہم
اب یہ ہے فکر کریں ان سے
صفائی کیونکر
آپ میں بھی تو رہی آتش تر کی تیزی
آگ پانی میں یہ ساقی نے
لگائی کیونکر
اللٰہ اللٰہ بتوں کو ہے یہ دستِ قدرت
ان کی مٹھی میں رہی ساری
خدائی کیونکر
وہ یہاں آئیں وہاں غیر کا گھر ہو برباد
اس طرح سے ہو صفائی میں
صفائی کیونکر
مجلسِ وعظ کو دیکھا تو کہا رندوں نے
ہو گی اس بھیڑ کی جنت میں
سمائی کیونکر
آئینہ دیکھ کر وہ کہنے لگے آپ ہی آپ
ایسے اچھوں کی کرے کوئی
برائی کیونکر
کثرت رنج و الم سن کے یہ الزام ملا
اتنے سے دل میں ہے اتنوں کی
سمائی کیونکر
اس نے صدقے میں کیے آج ہزاروں آزاد
دیکھیے ہوتی ہے عاشق کی
رہائی کیونکر
داغؔ کو مہر کہا اشک کو دریا ہم نے
اور پھر کرتے ہیں چھوٹوں کی
بڑائی کیونکر
داغؔ کل تو دعا آپ کی مقبول نہ تھی
آج منہ مانگی مراد آپ نے
پائی کیونکر