میں نے دل کی کمائی کھائی ہے

جون ایلیا


دولت دہر سب لٹائی ہے
میں نے دل کی کمائی کھائی ہے
ایک لمحے کو تیر کرنے میں
میں نے اک زندگی گنوائی ہے
وہ جو سرمایۂ دل و جاں تھی
اب وہی آرزو پرائی ہے
تو ہے آخر کہاں کہ آج مجھے
بے طرح اپنی یاد آئی ہے
جانِ جاں تجھ سے دو بدو ہو کر
میں نے خود سے شکست کھائی ہے
عشق میرے گمان میں یاراں
دل کی اک زور آزمائی ہے
اس میں رہ کر بھی میں نہیں اس میں
جانیے دل میں کیا سمائی ہے
موج بادِ صبا پہ ہو کے سوار
وہ شمیم خیال آئی ہے
شرم کر تو کہ دشت حالت میں
تیری لیلیٰ نے خاک اڑائی ہے
بک نہیں پا رہا تھا سو میں نے
اپنی قیمت بہت بڑھائی ہے
وہ جو تھا جونؔ وہ کہیں بھی نہ تھا
حسن اک خواب کی جدائی ہے
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
فہرست